چھینک اللہ پاک کی وہ نعمت ہے جس کی وجہ سے شعور کا نظام نارمل طریقے سے جاری و ساری ہے۔ خدانخواستہ انسان کو جب زندگی میں کوئی مسئلہ پیش آتا ہے وہ پریشان ہو کر اس مسئلے پر سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ شعور کا سوچنے والا حصہ متحرک ہو جاتا ہے یعنی یادداشت، یادداشت کو کنٹرول کرنے والی لہریں متحرک ہو جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ اگر حد سے زیادہ تجاوز کر جائے اور یادداشت پر دباﺅ پڑے یعنی یاددا شت متاثر ہونے لگے تو انسان کو چھینکیں آجاتی ہیں۔ چھینک آنے کی وجہ سے یادداشت کی متاثرہ لہریں واپس اپنی درست سمت میں کام کرنے لگتی ہیں لہٰذا انسان جب اپنے شعور پر دباﺅ ڈالے گا اس کو چھنکیں آسکتی ہیں۔
چھنکیں آنے سے انسان ہشاش بشاش ہو جاتا ہے کیونکہ چھینکوں سے متاثرہ لہریں اپنے مدار میں واپس چلی جاتی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ شعور کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے اللہ پاک نے چھینکوں کو بنایا ہے۔ اس لیے انسان ہشاش بشاش ہو جاتا ہے اور مسئلہ اپنے آغاز میں چلا جاتا ہے یعنی آغاز کی لہروں میں جہاں سے مسئلے کو قابو کرنا انسان کیلئے بہت آسان ہوتا ہے۔ یہ حالت ایک نارمل انسان کے شعور کی بیان کی گئی ہے لیکن حالات سے متاثرہ حساس شخص جسے نفسیاتی مریض کہتے ہیں۔ ایک لائن پر سوچ سوچ کر اپنے شعور پر دباﺅ ڈالتا رہتا ہے تو شعور کا نظام جس میں نیند، دل، یادداشت ،جمائی اور چھینکیں آتی ہیں ان میں سے کوئی ایک نظام بھی متاثر ہو جائے تو باقی نظام بھی متاثر ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ نظام جذباتی نظام کے تحت آپس میں لہروں کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔
جذباتی نظام چاہے تھوڑا بگڑا ہو یا زیادہ صرف چھینکوں کی بدولت ہم واپس اپنا شعوری نظام مکمل طور پر بحال کر سکتے ہیں۔
ایسے موقع پر نیند متاثر ہو جاتی ہے یعنی اڑ جاتی ہے۔ نیند کی گولیاں یا نیند کا انجکشن شعوری نظام کو مزید تباہ و برباد کر دیتے ہیں کیونکہ لہریں اپنے اپنے مدار سے باہر ہوتی ہیں اور انجکشن انہیں مزید بکھیر دیتا ہے یعنی الجھا دیتا ہے۔
اس لیے نفسیائی مریض ایسی ادویات سے مزید بگڑتا جاتا ہے۔ کوئی بھی حساس انسان اس وقت تک چوکنا نہیں ہوتا اور نہ فکر مند ہوتا ہے جب تک اس کی نیند نہ اڑے یا اُسے چکر نہ آئیں۔
مسلسل توجہ کی مشقوں سے لہروں میں مرکزیت اس وقت بحال ہو جائے گی۔ جب مریض کو چھینکیں آئیں گی یعنی شعور رواں دواں ہو جائے گا۔ ایسے موقعہ پر دو قسم کی مشقیں کی جا سکتی ہیں۔
(1 ) مطالعہ (2) پہلے چار کلموں کی تسبیحات
طریقہ: پہلے جتنی دیر مریض مطالعہ کر سکے اس کے بعد دائیں کروٹ لیٹ کر باری باری پہلے چار کلموں کی تسبیحات کریں ،چھینکیں آنے تک ۔چھینکیں آنے پر الحمد للہ ضرور پڑ ھیں ۔
یاد رکھیے: دنیا کی کوئی دوائی آپ کے شعور کی لہروں کی درست سمت کا تعین نہیں کر سکتی۔ سوائے توجہ اور پرسکون رہنے والی مشقوں کے اور نہ ہی دنیا کی کوئی دوائی آپ کی نیند واپس لا سکتی ہے ۔ سوائے توجہ کی مشقو ں کے ۔ چھینکو ں کی مثال شعور کے نظام میں ایسے ہے ۔ جیسے ویران جنگل میں نیک بزرگ با با جی۔ جو شہزادے کو ظالم جا دو گر تک پہنچنے کا راستہ بتا تے ہیں اور ساتھ منتر بھی تاکہ ظالم جا دو گر کا جادو اثر نہ کر سکے ۔ یہا ں شعور کو میں ایک ویران جنگل سے تشبیہ دو ں گی اور توجہ کی مشقیں منتر ہیں ۔ جبکہ نیند وہ شہزادی ہے جسے حاصل کرنا ہے۔
توجہ اورپر سکون رہنے والی مشقو ں سے شعور کو کنٹرو ل کریں اور کسی کو چارو ں کلمے نہ آتے ہوں تو وہ پہلے کلمے کی تسبیح نیند بحال ہونے تک کر تا رہے ۔ یا د رہے کہ کلمہ کی تسبیح میں زبان سے الفاظ ادا کرنے ضروری ہیں ۔ یعنی زبان کی حرکت ضروری ہے ۔ توجہ کی مشقوں سے دو قسم کی تبدیلی آئے گی یعنی چھینکیں اوراُبکائی۔ چھینکیں شعور کو نارمل بناتی ہیں اور ابکائی دل کو نارمل بناتی ہے یعنی گھٹن ختم کرتی ہے اسی طرح ڈپریشن کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے ۔ پرانے نفسیاتی مریض جب اپنے شعور کو بیدار کرکے نارمل زندگی کی طرف لوٹیں گے تو وہ اپنی چھینکوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ نارمل ہونے کی کس حد پر ہیں۔
ایک دو چھینکوں کا مطلب ہے کہ بندہ مکمل نارمل ہے اور شعور مکمل کنٹرول میں ہے۔ تین چار کا مطلب ہے کہ بندہ نارمل ہے اگر وہ اپنی سوچوں پر کنٹرول رکھے۔ یعنی بندہ حساس ہے۔ پانچ، چھ، سات،آٹھ، نو، دس کا مطلب ہے کہ مریض کی سوچ اب نارمل ہے مگر ابھی لہریں مکمل درست سمت تک نہیں پہنچی اور ابھی منزل دور ہے۔ محنت کی ضرورت ہے۔ وقتی فطری نیند تو حاصل ہو جائے گی مگر جب تک چھینکوں کی تعداد دو نہ ہو جائے مریض خود کومکمل ٹھیک نہ سمجھے۔
اگر نفسیاتی مریض کو الرجی ہو یعنی آنکھوں ناک سے پانی بہنے کے ساتھ ساتھ چھینکیں آتی ہوںتو اگر وجہ نفسیاتی خامی ہے تو توجہ کی مشقوں سے آہستہ آہستہ الرجی پر قابو پائیں۔ جیسے جیسے آپ نارمل زندگی کی طرف آتے جائیں گے چھینکوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔نفسیاتی مریض کی الرجی بھی ان مشقوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ٹھیک ہو جائے گی۔ نارمل ہونے کے سفر میں کیونکہ نفسیاتی مریضوں کی الرجی بھی شعور کی ڈسٹرب لہروں کی وجہ سے ہوتی ہےلہذا نارمل ہونے کے سفر میں نفسیاتی مریض کو لڑائی جھگڑے اور غصے سے دور رہنا چاہیے اور پرسکون رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور حکمت عملی سے اپنے مسائل اور پریشانیوں سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر آپ کو حکمت عملی یا رہنمائی کیلئے راستہ نہ مل رہا ہو تو مکمل رہنمائی اور مدد کیلئے کسی مستند معالج سے رجو ع کر یں۔
توجہ کی مشقوں سے متاثر لوگوں میں کوئی بھی تبدیلی آئے مثلاً نیند میں جانے سے جھٹکا لگے یا شور سنائی دے۔ یہ شور درخت کے پتوں کے شور جیسا بھی ہو سکتا ہے یا ہوا کا یا چیزوں کے گھسیٹنے کا یا جنات کی موجودگی کا احساس ہونا، آنکھ کھلنے پر بہت کچھ نظر آنا۔ یہ سب اگر آپ کے ساتھ ہوا بھی تو چند لمحوں کیلئے ہو گا ۔یہ وقتی تبدیلی ہے جو شعور کی تحریک کی وجہ سے پیش آتی ہے جب شعور کی متاثرہ لہریں اپنے مدار میں صحیح کام کرنے لگیں گی یہ سب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ٹھیک ہو جائے گا۔ ضروری نہیں آپ کے ساتھ ان میں سے کوئی سے بھی حالات پیش آئیں ممکن ہے کہ آپ کو کچھ بھی محسوس نہ ہو، نہ چھینکیں آئیں نہ اُبکائی۔ آپ معمولی سی تبدیلی جیسے آپ محسوس بھی نہ کر سکیں اورٹھیک ہو جائیں۔البتہ بہت زیادہ پرانے مریضوں کو اپنی نیند بحال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل بھی حل کرنے چاہئیں مثلاً بے چینی کیوں ہوتی ہے‘ غصہ کیوں آتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
آخر میں نفیساتی مریضوں کو پھر دہرانا چاہوں گی کہ انسانی جسم میں اب نارمل سوچ کی وجہ سے دو چیزوں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے شعور میں اور دل میں۔جب ان دونوں میں جذباتی تبدیلی واقع ہو جائے تو ڈپریشن کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ شعور میں تبدیلی چھینکوں کی بدولت جبکہ دل میں تبدیلی اُبکائی کی بدولت آئے گی، جس سے ڈپریشن کی کیفیت ختم ہو جائے گی اور مریض مکمل نارمل حالت میں آجائے گا۔(ان شا ءاللہ )
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں